خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو
اور اس جبر کو آزادیٔ افکار کہو
جن کے ہاتھوں میں علم اور نہ کمر میں شمشیر
وہ بھی کہتے ہیں ہمیں قافلہ سالار کہو
میں تو اک شوخ کے دامن سے کروں گا تعبیر
تم اسے شوق سے بت خانے کی دیوار کہو
زلف بہکے تو اسے باد بہاراں سمجھو
چاند نکلے تو اسے شعلۂ رخسار کہو
کج کلاہوں کے لیے سنگ ملامت بھی ہیں پھول
سر پہ آئیں تو انہیں زینتِ دستار کہو
میرے شعروں میں دھڑکتا ہے دل مستقبل
مجھ کو چاہو تو نئے دور کا فنکار کہو
میں نے ڈھائے ہیں روایات کے بوسیدہ محل
تم مجھے شوق سے غالب کا طرفدار کہو
دلکش ساگری
No comments:
Post a Comment