Friday, 4 April 2025

رہزن ہوا جو راہ نما ہاتھ کٹ گئے

رہزن ہوا جو راہنما ہاتھ کٹ گئے

بیری یہ راستہ جو ہوا ہاتھ کٹ گئے

غارت گرانِ امن و سکوں کو ملی پناہ

انصاف کی اٹھی جو صدا ہاتھ کٹ گئے

تبدیلئ نظام کی خاطر ہوئے نثار

ہاں، انقلاب آ تو گیا، ہاتھ کٹ گئے

جُرأت ملی سخن کو تو کاٹی گئی زبان

جُنبش جو دی قلم کو ذرا ہاتھ کٹ گئے

کیا خوب قدردانی بھی فنکار کی ہوئی

فن کو عروج جب بھی ملا ہاتھ کٹ گئے

در بھی قبولیت کے بڑی دیر میں کُھلے

ایجاب سے ملی نہ دُعا ہاتھ کٹ گئے

چھوڑا خُوشی پہ راگ اسی کی، معاملہ

جب اس کے فیصلے کو سُنا ہاتھ کٹ گئے


صفیہ راگ علوی

No comments:

Post a Comment