کھنڈرات میں بھٹکتی صدا ہُوں تِرے بغیر
کیسے تجھے بتاؤں میں کیا ہوں ترے بغیر
کیسے ادا کروں تِری یادوں کا شکریہ
جِن کے سہارے زندہ رہا ہوں ترے بغیر
مدت سے ہجرِ یار میں جو خود ہے جل بجھا
میں راہ میں پڑا وہ دِیا 🪔 ہوں ترے بغیر
🕪 دی زندگی نے اپنی طرف بارہا نِدا
اک بھی قدم نہ میں تو بڑھا ہوں ترے بغیر
ہر لمحہ طعنہ زن ہے تو کوسے ہر ایک سانس
اپنے لیے ہی ایک سزا ہوں ترے بغیر
بے آہ ایک درد ہوں، بے نالہ ایک کرب
بے صوت اک صدا، بخدا ہوں ترے بغیر
جینے کا سر اٹھا کے فقط تُو تھا آسرا
اپنی نظر میں اب تو گِرا ہوں ترے بغیر
آ کر نکال اب تو، نہ ہو جاؤں پاش پاش
گردابِ زِیست میں میں گِھرا ہوں ترے بغیر
آ پھر سے مسکرا کے مجھے تُو طلوع کر
ہُوں آفتاب، ☼ ڈُوب گیا ہُوں تِرے بغیر
ثاقب کے ڈُھونڈنے پہ بھی ثاقب نہیں مِلا
خود میں ہی گُم کچھ ایسا ہوا ہوں ترے بغیر
ثاقب علوی
No comments:
Post a Comment