عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بادِ خِزاں میں سر پہ کرم کی گھٹا رہے
سُوئے سفر مدینے کی ٹھنڈی ہوا رہے
چلتا رہوں میں جانب منزل بصد خلوص
ہاتھوں میں میرے پرچمِ مہر و وفا رہے
تھک جاؤں تو مِرے بنیں بازو تِرے نشاں
تُو ساتھ ہو اگرچہ زمانہ خفا رہے
مجھ کو نہیں طلب کسی منصب کی پھر ذرا
چوکھٹ پہ سر تِری اگر دائم پڑا رہے
طغیانیوں کے خوف سے ڈر جائے کس لیے
بندہ تِرا جو طوفاں میں ڈٹ کر کھڑا رہے
اعزاز ہے یہی مِرا قدموں میں ہوں تِرے
دنیا نہیں نصیب میں دارالبقاء رہے
بخشش کی اک دُعا مِرے ہونٹوں پہ ہے سجی
"لب پر مدام صل علیٰﷺ کی صدا رہے"
ڈرتا ہوں میرے مولیٰ تِرے عدل سے بہت
میرے لیے وسیلۂ لطف و عطا رہے
تیرا تِرے حبیبؐ کے در کا گدا ہوں میں
تُو ہی بتا! فقیر تِرا اور کیا رہے ؟
فیضی بڑھا کچھ اور محبت کی چاشنی
باتوں سے تیری عشق کا ملتا مزا رہے
مبشر حسین فیضی
No comments:
Post a Comment