سامنے تھا وہ مگر دید وغیرہ نہیں کی
اب کے آنکھوں نے کوئی عید وغیرہ نہیں کی
یُوں رکھا مان ہمیشہ تِرے بُہتانوں کا
ہنس کے چُپ ہو گئے، تردید وغیرہ نہیں کی
خیر ہو، آج طبیعت تری ناساز ہے کیا ؟
آج مجھ پر کوئی تنقید وغیرہ نہیں کی
عشق میں ہارے ہوئے کھیلے تو کُھل کر کھیلے
پھر نگہبانئ توحید وغیرہ نہیں کی
کل سرِ راہ ملا اُس سے تو میں چُپ ہی رہا
وعدۂ عشق کی تجدید وغیرہ نہیں کی
یہ بھی دن آنے تھے فارس کہ ہمیں ساقی نے
رات پرہیز کی تاکید وغیرہ نہیں کی
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment