Monday, 10 March 2025

سامنے تھا وہ مگر دید وغیرہ نہیں کی

 سامنے تھا وہ مگر دید وغیرہ نہیں کی 

اب کے آنکھوں نے کوئی عید وغیرہ نہیں کی 

یُوں رکھا مان ہمیشہ تِرے بُہتانوں کا 

ہنس کے چُپ ہو گئے، تردید وغیرہ نہیں کی 

خیر ہو، آج طبیعت تری ناساز ہے کیا ؟

آج مجھ پر کوئی تنقید وغیرہ نہیں کی 

عشق میں ہارے ہوئے کھیلے تو کُھل کر کھیلے 

پھر نگہبانئ توحید وغیرہ نہیں کی

کل سرِ راہ ملا اُس سے تو میں چُپ ہی رہا 

وعدۂ عشق کی تجدید وغیرہ نہیں کی 

یہ بھی دن آنے تھے فارس کہ ہمیں ساقی نے 

رات پرہیز کی تاکید وغیرہ نہیں کی

 

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment