بقا کی چاہ میں تو دیکھ بے مکان نہ ہو
زمین تیری حقیقت ہے آسمان نہ ہو
رہ نجات میں منزل کی جستجو کس کو
یہ وہ سفر ہے کہ جس میں کبھی تھکان نہ ہو
یہاں سبھی کی رسائی تو غیر ممکن ہے
یہ تجربات کی محفل ہے بد گمان نہ ہو
رہو خلاف تو دنیا سے واسطہ نہ رہے
ملو تو ایسے کہ پھر کوئی درمیان نہ ہو
تمہاری شہ پہ فلک کی تو ٹھان لی ہے مگر
یہ زندگی کی کہیں آخری اڑان نہ ہو
بسمل عارفی
No comments:
Post a Comment