Wednesday, 12 March 2025

پگدنڈی پر اک چرواہا گاتا جائے گیت

 دریا گلی میں شام


کہساروں پر دیے جل اٹھے جیسے جاگے پریت

پگدنڈی پر اک چرواہا گاتا جائے گیت

بادل کی چلمن سے جھانکے سپنوں کا اک جال

جال کے جیسے ہوا میں اڑتے اک ناری کے بال

گھور اندھیرا ہریالی پر کاڑھے اپنا نام

رین بسیرا ڈھونڈ رہی ہے جلتی بُجھتی شام

ڈھلوانوں پر ترچھی چھت کے گھروں میں جلتی آگ

اک پرنالہ چھیڑ رہا ہے بھُولا بسرا راگ

بل کھاتے رستے پہ مسافر دور ہی جاتا جائے

گھر کے باہر تنہا عورت دل کو ہے سمجھائے

اوپر بادل، پیچھے جنگل، نیچے گہری کھائی

قطرہ قطرہ اک پتھر پر ٹپکے ہے تنہائی

بھیگ رہی ہے اوس میں کرسی وقت گیا ہے بیت

پگڈنڈی پر خاموشی ہے ختم ہوا وہ گیت


خورشید حسنین

No comments:

Post a Comment