دریا گلی میں شام
کہساروں پر دیے جل اٹھے جیسے جاگے پریت
پگدنڈی پر اک چرواہا گاتا جائے گیت
بادل کی چلمن سے جھانکے سپنوں کا اک جال
جال کے جیسے ہوا میں اڑتے اک ناری کے بال
گھور اندھیرا ہریالی پر کاڑھے اپنا نام
رین بسیرا ڈھونڈ رہی ہے جلتی بُجھتی شام
ڈھلوانوں پر ترچھی چھت کے گھروں میں جلتی آگ
اک پرنالہ چھیڑ رہا ہے بھُولا بسرا راگ
بل کھاتے رستے پہ مسافر دور ہی جاتا جائے
گھر کے باہر تنہا عورت دل کو ہے سمجھائے
اوپر بادل، پیچھے جنگل، نیچے گہری کھائی
قطرہ قطرہ اک پتھر پر ٹپکے ہے تنہائی
بھیگ رہی ہے اوس میں کرسی وقت گیا ہے بیت
پگڈنڈی پر خاموشی ہے ختم ہوا وہ گیت
خورشید حسنین
No comments:
Post a Comment