ہماری حسرت وطن کو اپنی محبتوں سے نکھار دیں گے
نئی امیدوں کی روشنی سے ہم اس کی زُلفیں سنوار دیں گے
یہی وفاوں کا رہگزر ہے یہی ہمارے سفر کی منزل
جو قرض مٹی کا سر ہے اپنے وہ قرض سر سے اتار دیں گے
تِری ہی خاطر لٹا چکے ہیں ہزاروں تارے ہزار سورج
اگر ضرورت پڑی دوبارہ تو اپنی جانوں کو وار دیں گے
تِرے اجالے میں زندگی ہے تِرے اندھیروں میں روشنی ہے
تِری فضاؤں میں سانس لے کر یہ زندگی ہم گزار دیں گے
تِری طرف اب کوئی دشمن نظر اٹھا کر نہ دیکھ پائے
تیری ہی حرمت پہ جان دے کر لہو کا اونچا حصار دیں گے
یہ پھول جیسے ہمارے پچے یہ چاند جیسے حسین چہرے
یہی تو علم و ہنر سے اپنے شعور دیں گے وقار دیں گے
تجھے اذیت بہت ملی ہے مگر امیدیں بندھی ہوئی ہیں
سکوں کا سورج طلوع بھی ہو گا تجھے نہ اب انتظار دیں گے
یہ ہم نے مانا وطن کو اب تک کسی نے کچھ بھی نہیں دیا ہے
کبھی تو ایسے ملیں گے انساں جو اس کو صبر و قرار دیں گے
نہ بجلیوں کا رہے گا خطرہ نہیں خزاں کا گزر ہو جس میں
وزیر خُون جگر سے اپنے چمن کو رنگ بہار دیں گے
وزیر حسن
No comments:
Post a Comment