Tuesday, 25 March 2025

لکھ لکھ کے یار ہاتھ ہمارے پگھل گئے

 لکھ لکھ کے یار ہاتھ ہمارے پگھل گئے

ہم سے جو سیکھتے تھے وہ آگے نکل گئے

آنکھوں کا رنگ ہو یا مِری شاعری کا رنگ 

سب کچھ بدل گیا مِرا، جب تم بدل گئے

سب لوگ لے کے آئے تھے اعمال رب کے پاس

ہم اپنے رب کے پاس بھی لے کر غزل گئے

ہم آج بھی ان ہی کو بھلانے میں لگے ہیں

وہ تین دن اداس رہے پھر سنبھل گئے 

شعلہ نما وہ خواب تھے آنکھیں جھلس گئیں

آنکھوں کا دکھ نہیں ہے، مِرے خواب جل گئے 

دنیا بھی میرے دل کی طرح لگ رہی ہے آج

دیکھو تمام شہر اداسی میں ڈھل گئے 


مرزا منیب بیگ

No comments:

Post a Comment