وہ وقت لوگ وہ پہلی سی چاہتیں نہ رہیں
ہماری جھولی میں پہلی سی راحتیں نہ رہیں
راس آ گیا جب سے سکوتِ تنہائی
وہ رتجگے، وہ محافل، وہ ساعتیں نہ رہیں
بدلتے وقت نے ہر آرزو کُچل ڈالی
جنم جو لیتی تھیں دل میں وہ خواہشیں نہ رہیں
گزار آئے ہیں اک عُمر کھوجتے منزل
وہ کارواں نہ رہا، اب مُسافتیں نہ رہیں
نئی ڈگر پہ عجب چل پڑی ہے نسلِ نو
اب اس میں اپنے ہی آباء کی خصلتیں نہ رہیں
ہر ایک چہرے پہ چھایا ہے مکر کا سایہ
خلوص وہ نہ رہا،۔ وہ محبتیں نہ رہیں
تمام شکوے گِلے ہیں بھُلا دئیے روبی
ہو دوست یا کہ عدُو، اب عداوتیں نہ رہیں
روبینہ ممتاز روبی
No comments:
Post a Comment