پچھلے زخموں کا ازالہ نہ ہی وحشت کرے گا
تجھ سے واقف ہوں مِری جاں تو محبت کرے گا
میں چلا جاؤں گا دنیا سے سکندر کی طرح
اگلی صدیوں پہ مِرا نام حکومت کرے گا
دل تِری راہ اذیت سے پلٹنے کو ہے
کیا تو اب بھی نہ مِرا خواب حقیقت کرے گا
تُو مِری موت کی تصدیق نہیں کر سکتا
چھوئے گا تو مجھے اور دل مرا حرکت کرے گا
واہمہ صحرا نوردی کا مدلل نہیں ہے
کوئی ہو گا مِرے دل میں تبھی ہجرت کرے گا
وہ جو آفاق! چراغوں کی لویں توڑتا ہے
اہنا سورج بھی اسی ہاتھ پہ بیعت کرے گا
مقصود آفاق
No comments:
Post a Comment