تکلم یار سے بیتے دنوں کا
یار فرقی زمانہ ہوا
ہم نے جب بچپنے کو پرانی کتابوں کی مانند
ردی میں بیچا
تو ہنستا ہوا بچپنا خامشی سے
بہت دیر تک ہم کو تکتا رہا
یاد ہے نا تمہیں
ایک دن ہم نے سنجیدہ ہو کر ضعیفی کو اوڑھا
تو لوگوں نے طعنے دئیے
ہم کو لوگوں کی نظروں میں معیوب ہونا پڑا
جیسے درویش ہوتے ہیں
ہم نے بھی ان کی طرح
سر مہری کی سانسوں سے
شریانوں میں اپنی اپنی جوانی کو بیزار ہونے دیا
ایسا کیونکر ہوا
میں نہیں جانتا
ہم نے بستوں کو دیوار کی چھاؤں میں جب ٹٹولا
تو خوابوں بھرا بچپنا
دیر تک ہم کو تکتا رہا
جبکہ ہم نے زمانوں کو
سرگوشیوں کی مطالب بتانے تھے
سو چپ رہے
فرقان فرقی
No comments:
Post a Comment