کسی نے مجھ کو مِرے نام سے پکارا ہے
یہ اک گماں بھی یقیناً بڑا سہارا ہے
سحر نصیب ہو اس رات کو کبھی لیکن
ابھی تلک تو مِری طرح بے سہارا ہے
کسی کی بزم سے اٹھنا محال ہے لیکن
وگرنہ اتنا تغافل کسے گوارا ہے
کبھی پکار لے اک بار زندگی تُو بھی
ہر ایک بار ہمیں نے تجھے پکارا ہے
ڈبو دیا ہے شناور کو ساحلوں نے کبھی
تلاطموں نے سفینہ کبھی ابھارا ہے
کہیں گے راہبر اس کو، وہ راہزن ہی سہی
یہ فیصلہ بھی ہمارا نہیں تمہارا ہے
اسے تو ساحرہ! تنکے کا آسرا ہے بہت
جہاں وہ ڈوب رہا ہے وہیں کنارا ہے
ساحرہ بیگم
بیگم ساحرہ قزلباش
No comments:
Post a Comment