زندگی ان ٹوٹتے لمحوں میں کیا دے جائے گی
دھند میں لپٹے گھروندے کا پتہ دے جائے گی
چھین لے گی میری آنکھوں سے یہ خوابوں کی ردا
یاد تیری آئے گی پھر رت جگا دے جائے گی
یہ شب مہتاب بھی تیرے تبسم کی طرح
سوچ کو میری شکستہ زاویہ دے جائے گی
روشنی کے نام پر پرچھائیوں میں جنگ ہے
جنگ خاک و خون کا دفتر نیا دے جائے گی
ہاتھ پھیلائے کھڑی رہ جائیں گی شاخیں تمام
زرد پتوں کو نئے مسکن ہوا دے جائے گی
اسلم بیگ مرزا
No comments:
Post a Comment