شہر بے مہر میں ملتا کہاں دلدار کوئی
کاش مل جاتا ہمیں مجمع اغیار کوئی
چیر دے قلب زمیں توڑ دے زنجیر زماں
چھیڑ اب ایسا فسانۂ دل نادار کوئی
نالۂ دل سے جگر ہوتا ہے چھلنی یا رب
صبر کرتی ہوں تو چل جاتی ہے تلوار کوئی
بجھ گئی راہ وفا ڈوب گئی صبح امید
لے کے اب آئے گا کیا وعدۂ دیدار کوئی
ایک ایک کر کے ہوئی بزم محبت خالی
نظر آتا نہیں اب یار وفادار کوئی
جانے کن جبر کی زنجیروں میں جکڑی ہے حیات
ہیں کہیں چارۂ وحشت کے بھی آثار کوئی
یہ زباں بندیٔ احساس یہ جبر حالات
جرم ہے کھولے اگر دیدۂ بیدار کوئی
ساجد سجنی لکھنوی
No comments:
Post a Comment