ہے وہ دشمن تو اب یار ہو جائے گا
دوستی سے ملو، پیار ہو جائے گا
موجیں طوفاں کی شرمندہ ہونے لگیں
بیڑا ڈوبا نہیں، پار ہو جائے گا
اس کے دل میں جو بُوئے وفا ہی نہیں
وعدہ کرنا بھی بے کار ہو جائے گا
زندگی اپنی فُرصت کو ترسے گی پھر
انساں اتنا بھی لاچار ہو جائے گا
حُسن ہے، پر مروت ذرا بھی نہیں
پھُول لگتا ہے اب خار ہو جائے گا
تم ہی رکھتے ہو رنجش سے کچھ فاصلے
دیکھ لینا وہ غمخوار ہو جائے گا
مہرباں راگ ہو کر نہ بدلو چلن
راستہ خود ہی ہموار ہو جائے گا
صفیہ راگ علوی
No comments:
Post a Comment