دیوار کے ہوتے ہوئے در بیٹھ گیا ہے
بنیاد ہی ایسی تھی کہ گھر بیٹھ گیا ہے
سائے میں شجر کے تِری گلیوں کا مسافر
کیا حرج ہے کچھ دیر اگر بیٹھ گیا ہے
منزل کی تمنا میں ہر اک شخص چلا تھا
ہر شخص سر راہ گزر بیٹھ گیا ہے
ساحل پہ اتر جائیں گے اس بار سفینے
ہم تو یہ سمجھتے تھے بھنور بیٹھ گیا ہے
جو شعر تِرے نام سے منسوب کیا تھا
اسی شعر کا ہر دل میں اثر بیٹھ گیا ہے
ہمراہ مِرے دھوپ میں جلتا ہوا احسان
دیوار کے سائے میں شجر بیٹھ گیا ہے
ریاض احمد احسان
No comments:
Post a Comment