Thursday, 27 March 2025

دیوار کے ہوتے ہوئے در بیٹھ گیا ہے

دیوار کے ہوتے ہوئے در بیٹھ گیا ہے

بنیاد ہی ایسی تھی کہ گھر بیٹھ گیا ہے

سائے میں شجر کے تِری گلیوں کا مسافر

کیا حرج ہے کچھ دیر اگر بیٹھ گیا ہے

منزل کی تمنا میں ہر اک شخص چلا تھا

ہر شخص سر راہ گزر بیٹھ گیا ہے

ساحل پہ اتر جائیں گے اس بار سفینے

ہم تو یہ سمجھتے تھے بھنور بیٹھ گیا ہے

جو شعر تِرے نام سے منسوب کیا تھا

اسی شعر کا ہر دل میں اثر بیٹھ گیا ہے

ہمراہ مِرے دھوپ میں جلتا ہوا احسان

دیوار کے سائے میں شجر بیٹھ گیا ہے


ریاض احمد احسان 

No comments:

Post a Comment