مفت الزام بغاوت مرے سر رکھتے ہیں
وہ جو تاریخِ گلستاں پہ نظر رکھتے ہیں
ہم نے گھنگھور اندھیروں میں گزاری ہے حیات
ہم بھی اب حسرتِ دیدارِ سحر رکھتے ہیں
آج انہیں صاحبِ کردار کہا جاتا ہے
مرضئ وقت کے قدموں پہ جو سر رکھتے ہیں
جو کسی شمع کے شرمندۂ احساں نہ ہوئے
ان اندھیروں سے ہم امیدِ سحر رکھتے ہیں
اس قدر وادئ حالات کی تپتی ہے زمیں
پاؤں رکھا نہیں جاتا ہے مگر رکھتے ہیں
ہنسنے والو! نہ ہنسو ہم سے پریشانوں پر
ہم بھی کچھ اپنی دعاؤں میں اثر رکھتے ہیں
ہم سے دیوانے تو اس دورِ ترقی میں کمال
بے خبر ہو کے زمانے کی خبر رکھتے ہیں
کمال لکھنوی
سید غلام عباس
No comments:
Post a Comment