Thursday, 20 March 2025

صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو

 صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو

اور "قاتل" کا نیا نام "مسیحا" رکھ دو

اب تو رسوائی کی حد میں ہے میری تشنہ لبی

اب تو ہونٹوں پہ دہکتا ہوا شعلہ رکھ دو

کتنی تاریک ہے شب میرے مکاں کی یاروں

ان منڈیروں پہ کوئی چاند سا چہرہ رکھ دو

اب کی بارش میں مِرا نام چمک جائے گا

لاکھ تم ریت کی تہہ میں مِرا کتبہ رکھ دو

پھر بھی حق بات کے کہنے سے نہ بعض آؤں گا

میرے ہاتھوں پہ بھلے دولت دنیا رکھ دو

نیند سی آنے لگی زلف کے سائے میں مجھے

پھر مِرے خوابوں پہ تپتا ہوا صحرا رکھ دو

میرے افسانے کو پھر موڑ نیا سا دے دو

اور عنوان سلگتا ہوا لمحہ رکھ دو

جو سمجھتے ہی نہیں میری زباں کو عشرت

ان کے افکار میں میرا لب و لہجہ رکھ دو


عشرت کرتپوری

No comments:

Post a Comment