جو تیر آج تک نہ کمانوں پہ آئے ہیں
جب زہر میں بجھے تو نشانوں پہ آئے ہیں
ہیں در بدر، پہ اب کے نہیں تابِ گمرہی
کچھ گیت بن کے گُنگ زبانوں پہ آئے ہیں
صیاد! تیرے دامِ محبت کی خیر ہو
بیخود شکار خود ہی نشانوں پہ آئے ہیں
وہ حادثے ہوئے کہ زمیں دنگ رہ گئی
صحرا سمندروں کے دہانوں پہ آئے ہیں
ہے خار و خس کو ایک شرارے کی آرزو
لیکن، چراغ حیلے بہانوں پہ آٸے ہیں
وہ رن پڑا کے تیغ و تبر کند ہو گئے
ضدی حریف لوٹ کے سانوں پہ آئے ہیں
پھر لوٹنے لگے ہیں ستاروں کے قافلے
پھر اختتامِ شب کے نشانوں پہ آئے ہیں
خلوت کی بات کون بھلا برملا کہے
سچ بولنا پڑا تو فسانوں پہ آئے ہیں
راشد نواز
No comments:
Post a Comment