Wednesday, 19 March 2025

خزانہ یہ میری دولت، یہ میری دولت

 خزانہ


یہ میری دولت، یہ میری دولت

جو میری محنت کا ہے نتیجہ

جو میری عزت کا ہے ذریعہ

جو میری شہرت کا ہے وسیلہ

وہ مثل اولاد جس کو چاہا

یہ میری دولت، یہ میری دولت

کہ جس کو آدھی صدی سے زیادہ، کبھی سنوارا، کبھی سجایا

ہزارہا گردش زمانہ کے بیچ اس کو لہو سے سینچا

جو قطرہ قطرہ جمع کیا میں نے اور بنایا تھا اک سمندر

بشر کی فکر و نظر کا رہبر

جو جہل سے بھی لڑے وہ لشکر

یہ میری دولت، یہ میری دولت

کہ چاہے کتنا قدیم بھی ہو ہر اس کا سکّہ

وو رائج الوقت آج بھی ہے

رہے گا صدیوں کے بعد بھی رائج زمانہ

یہ میری دولت، غریب خانے میں جس روز آرہی تھی

تب اس کا چہرہ چمک رہا تھا، دمک رہا تھا

یہ مجھسے نظریں ملا رہی تھی، یہ ہو کے خوش مسکرا رہی تھی

یہ میری دولت، جو اس کا ہو قدردان آئے

وو بھر کے دامن میں لے کے جائے

میں اذن آج اس کو دے چکا ہوں، جہاں بھی چاہے پناہ پائے

یہ میری دولت، حیات نو کی میں دے رہا ہوں اسے دعائیں

ہیں اس کے لب پر مگر یہی صرف التجائیں

کہ میں نہ دل سے بھلاؤں اس کو

نہ اس طرح گھر بدر کروں میں

نہ اس طرح سے رلاؤں اس کو

مگر میں سینے پہ رکھ کے پتھر، وداع اب گھر سے کر رہا ہوں

کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے، بکھر رہا ہوں، بکھر رہا ہوں

اور اس کی آنکھوں میں بھی نمی ہے، میں جانتا ہوں میری کمی ہے

ہے بے وفائی کا آج یہ اعتراف مجھ کو

جو ہو سکے تو ضرور کر دے معاف مجھ کو

یہ عمربھر کا مِرا خزانہ، خدا اسے ایسا دے ٹھکانہ

کہ جیسے کی میں نے قدر اس کی، ملے نے گھر وہی محبت

لٹا رہا ہوں میں یہ خزانہ

کتاب خانہ، کتاب خانہ


عظیم امروہوی

No comments:

Post a Comment