دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے
اپنی زلفوں کو بنایا ہی کیے وہ بیٹھے
اپنی صورت پہ کہیں آپ نہ عاشق ہونا
بے طرح دیکھتے ہو آئینہ تم تو بیٹھے
زلف الجھی ہے تو شانے سے اسے سلجھا لو
شام کا وقت ہے ہو کوستے کس کو بیٹھے
جاؤں کیا ایک تو دربان ہے اور ایک رقیب
جان لینے کو فرشتے ہیں وہاں دو بیٹھے
ہے جوانی بھی عجب چاہتا ہے دل تنویر
اسے تاکو اسے گھورو اسے دیکھو بیٹھے
تنویر دہلوی
No comments:
Post a Comment