Tuesday, 18 March 2025

تعلق توڑ کر اس کی گلی سے

 تعلق توڑ کر اُس کی گلی سے

کبھی میں جُڑ نہ پایا زندگی سے

خدا کا آدمی کو ڈر کہاں اب

وہ گھبراتا ہے کیول آدمی سے

مِری یہ تشنگی شاید بُجھے گی

کسی میری ہی جیسی تشنگی سے

بہت چُبھتا ہے یہ میری انا کو

تمہارا بات کرنا ہر کسی سے

خسارے کو خسارے سے بھروں گا

نکالوں گا اُجالا تیرگی سے

تمہیں اے دوستو! میں جانتا ہوں

سکوں ملتا ہے میری بے کلی سے

ہواؤں میں کہاں یہ دم تھا فیصل

دِیا میرا بُجھا ہے بُزدلی سے


سراج فیصل

No comments:

Post a Comment