سب مکر کی آلودہ نگاہوں سے بھرے ہیں
اے شہر! تِرے لوگ گُناہوں سے بھرے ہیں
میں جُرمِ مُحبت میں جو ماخوذ ہُوا ہوں
سب عدل کے ایوان گواہوں سے بھرے ہیں
کچھ ان کے عزائم بھی نہیں تجھ سے الگ تھے
پر کتنے مقابر ہیں کہ شاہوں سے بھرے ہیں
اے دوست! جو منزل پہ کُھلے، رستہ وہی ہے
ورنہ تو بیابان بھی راہوں سے بھرے ہیں
یاروں کو توقع تھی ذرا شُغل رہے گا
اسلم تِرے اشعار تو آہوں سے بھرے ہیں
شاہد اسلم
No comments:
Post a Comment