مزاج عشق کو جس نے قلندرانہ کیا
کلام جس سے کیا اس نے عارفانہ کیا
ستم کی دھوپ نے یہ کار معجزانہ کیا
ہماری راہ میں شفقت کا شامیانہ کیا
وہ جس نے دل پہ مِرے وار قاتلانہ کیا
اسی کو میں نے کبھی جان سے جدا نہ کیا
وہ اک درخت جہاں سانپ کا بسیرا ہے
کسی پرندے نے کب اس پہ آشیانہ کیا
سوال پوچھنے والو! سنو بتاؤں میں
چراغ دل سے منور غریب خانہ کیا
اسی زمین سے نسبت تھی ہم پرندوں کو
اسی زمین کی مٹی کو آب و دانہ کیا
ہمارے خون کی فطرت میں ہے وفاداری
سو ہم نے جس سے کیا پیار مخلصانہ کیا
عزیز تر جسے رکھا سنبھال کر دل میں
سلوک اس نے بہت ہم سے باغیانہ کیا
خوشی کے ساتھ نکلتا ہے گھر سے کون اشہر
ضرورتوں نے سفر پر ہمیں روانہ کیا
نوشاد اشہر اعظمی
No comments:
Post a Comment