Tuesday, 18 March 2025

مزاج عشق کو جس نے قلندرانہ کیا

 مزاج عشق کو جس نے قلندرانہ کیا

کلام جس سے کیا اس نے عارفانہ کیا

ستم کی دھوپ نے یہ کار معجزانہ کیا

ہماری راہ میں شفقت کا شامیانہ کیا

وہ جس نے دل پہ مِرے وار قاتلانہ کیا

اسی کو میں نے کبھی جان سے جدا نہ کیا

وہ اک درخت جہاں سانپ کا بسیرا ہے

کسی پرندے نے کب اس پہ آشیانہ کیا

سوال پوچھنے والو! سنو بتاؤں میں

چراغ دل سے منور غریب خانہ کیا

اسی زمین سے نسبت تھی ہم پرندوں کو

اسی زمین کی مٹی کو آب و دانہ کیا

ہمارے خون کی فطرت میں ہے وفاداری

سو ہم نے جس سے کیا پیار مخلصانہ کیا

عزیز تر جسے رکھا سنبھال کر دل میں

سلوک اس نے بہت ہم سے باغیانہ کیا

خوشی کے ساتھ نکلتا ہے گھر سے کون اشہر

ضرورتوں نے سفر پر ہمیں روانہ کیا


نوشاد اشہر اعظمی

No comments:

Post a Comment