Monday, 17 March 2025

تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا

 تمہارے قصر آزادی کے معماروں نے کیا پایا

جہاں بازوں کی بن آئی جہاں کاروں نے کیا پایا

ستاروں سے شب غم کا تو دامن جگمگا اٹھا

مگر آنسو بہا کر ہجر کے ماروں نے کیا پایا

نقیب عہد زریں صرف اتنا مجھ کو بتلا دے

طلوع صبح نو برحق مگر تاروں نے کیا پایا

جنوں کی بات چھوڑو اس گئے گھر کا ٹھکانا کیا

فریب عقل و حکمت کے پرستاروں نے کیا پایا

سر افرازی ملی اہل ہوس کی پارسائی کو

مگر تیری محبت کے گنہ گاروں نے کیا پایا

کھلونے دے دئیے کچھ آپ نے دست تمنا میں

بجز داغ جگر آئینہ برداروں نے کیا پایا

ملی سر پھوڑتے ہی قید ہستی سے بھی آزادی

رکاوٹ ڈال کر زنداں کی دیواروں نے کیا پایا

ہمارے سامنے ہی بیٹھ کر فاروق مسند پر

ہمیں سے پوچھتے ہو پھر کہ غداروں نے کیا پایا


فاروق بانسپاری

No comments:

Post a Comment