Saturday, 29 March 2025

یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر

 یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر

رکھ لیا تُو نے تو عشّاق کو تلواروں پر

کوچۂ یار سے، برباد بھی ہو کر نہ گیا

خاک اُڑ اُڑ کے مِری جم گئی، دیواروں پر

لے کے بوسے کسی بے رحم نے، ڈالے ہیں نشاں

کاکلیں چھُوٹی ہیں اِس واسطے، رُخساروں پر

محتسب! توڑ کے شیشہ نہ بہا مفت شراب

ارے کم بخت! چھڑک دے اسے، میخواروں پر

آگ تلووں سے لگی، بزمِ عدو میں یا ربّ

فرشِ گُل پر ہیں مِرے پاؤں، کہ انگاروں پر

کل تمہیں داورِ محشر سے یہ کہنا ہو گا

رحم کر رحم، محبت کے گنہ گاروں پر

ایسی دیکھی نہ سُنی عاشقی و معشوقی

جان جاتی ہے اجل کی، تِرے بیماروں پر

داغ کا عشق بھی دُنیا سے نرالا دیکھا

دل جب آتا ہے تو آتا ہے، دلآزاروں پر


داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment