خلوص رنگ سے رنگیں ہو آدمی کا لباس
یہی ہے اصل میں انساں کی کی زندگی کا لباس
ہم اپنی پیاس کا رونا بھی اب رو نہیں سکتے
لبوں سے سب کی جھلکتا ہے تشنگی کا لباس
یہ دشمنوں کا حربہ ہے ذرا خیال رہے
ملاتے ہاتھ پہن کر ہیں دوستی کا لباس
جسے دیوانہ سمجھتی ہو وہی دانا ہے
وہ جس کے جسم پہ رہتا ہے مفلسی کا لباس
یہ اور بات میں نو مشق ہوں ابھی لیکن
خدا نے بخشا ہے مجھ کو بھی پختگی کا لباس
جو ایک مصرعہ مکمل نہ کر سکا احمد
وہ پہنے بیٹھا ہے استادِ شاعری کا لباس
احمد ارسلان کشتواڑی
No comments:
Post a Comment