نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے
سایۂ ذات سے بھی رم، عکس صفات سے بھی رم
دشتِ غزل میں آ کے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے
کتنے ہی نشہ ہائے ذوق، کتنے ہی جذبہ ہائے شوق
رسمِ تپاکِ یار سے رو بہ زوال ہو گئے
عشق ہے اپنا پائیدار، اس کی وفا ہے استوار
ہم تو ہلاکِ ورزشِ فرضِ محال ہو گئے
کیسے زمیں پرست تھے عہدِ وفا کے پاسدار
اڑ کے بلندیوں میں ہم، گرد ملال ہو گئے
قربِ جمال اور ہم، عیش و وصال اور ہم؟
ہاں یہ ہوا کہ ساکنِ شہرِ جمال ہو گئے
جادۂ شوق میں پڑا قحطِ غُبارِ کارواں
واں کے شجر تو سر بہ سر دستِ سوال ہو گئے
کون سا قافلہ ہے یہ، جس کے جرس کا ہے یہ شور
میں تو نڈھال ہو گیا،۔ ہم تو نڈھال ہو گئے
خار بہ خار گُل بہ گُل، فصلِ بہار آ گئی
فصلِ بہار آ گئی،۔ زخم بحال ہو گئے
شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خون بہا مگر تِرے ہاتھ تو لال ہو گئے
ہم نفسانِ وضع دار،۔ مستعانِ بُردبار
ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے
جون! کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے، اب کئی سال ہو گئے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment