Sunday, 23 March 2025

ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں

 ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں

مآل شوق ہوں آئینہ ⌗ وفا ہوں میں

کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ

کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں

شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں

ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں

مِرا وجود حقیقت،۔ مِرا عدم دھوکا

فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں

ہے تیری آنکھ میں پنہاں مِرا وجود و عدم

نگاہ پھیر لے پھر دیکھ کیا سے کیا ہوں میں

مِرا وجود بھی تھا کوئی چیز کیا معلوم

اس اعتبار سے پہلے ہی مٹ چکا ہوں میں

شمار کس میں کروں نسبت حقیقی کو

خدا نہیں ہوں مگر مظہر خدا ہوں میں

مِرا نشاں نگہ حق نگر پہ ہے موقوف

نہ خود شناس ہوں ہادی نہ خود نما ہوں میں


ہادی مچھلی شہری

No comments:

Post a Comment