نہیں ہے گرچہ خزاں، پھول دستياب نہیں
لگا دو آگ، جہاں پھول🎕 دستياب نہیں
یہ دشتِ دل ہے یہاں صرف ریت اگتی ہے
وگرنہ آج کہاں پھول🎕 دستياب نہیں
میں سارے شہر کا چکر لگا کے آیا ہوں
کسی جگہ پہ یہاں پھول🎕 دستياب نہیں
وہاں تمہاری پذیرائی ہو نہیں سکتی
ادھر نہ جاؤ وہاں پھول دستياب نہیں
گلاب ہونٹ میری سمت چل پڑے تھے سلیم
مجھے یہی تھا گماں پھول🎕 دستياب نہیں
سلیم نتکانی
No comments:
Post a Comment