مِرے ملک کی زمیں پر یہ نظام چل رہا ہے
کہیں رقص ہو رہا ہے، کہیں جام چل رہا ہے
تُو غزل کی گائیکہ ہے میں غزل کا رائٹر ہوں
تِرے کام کی بدولت مِرا کام چل رہا ہے
مئی جون آ گیا تو مِرے دل سے ہُوک اُٹھی
یہاں کھا رہے ہیں برگر، وہاں آم چل رہا ہے
مِرے شہ سوارِ ملّت! ذرا اوج سے اُتر آ
کئی منزلوں سے پیدل یہ غلام چل رہا ہے
یہ مشاعرہ ہے لیکن یہاں چھا گئے گوئیے
جو گلے کو چیر نکلے وہ کلام چل رہا ہے
یہاں روٹیوں کی قیمت کسی مولوی سے پوچھو
یہاں مقتدی کے پیچھے اک امام چل رہا ہے
تِری سرحدوں سے نکلے کئی سال ہو گئے ہیں
تِری محفلوں میں اب بھی مِرا نام چل رہا ہے
خالد عرفان
No comments:
Post a Comment