درونِ شہرِ تمنا کسی کو ہار آئے
چراغِ کشتہ کی لَو کو وہاں اتار آئے
فنا کے سانپ ہیں جنسِ ہُنر سے ناواقف
چلے تو کیچلی اپنی وہاں اُتار آئے
دیارِ جسم ہے اُلفت کے دائروں سے پرے
شعارِ شوقِ بدن میں نہ یہ حِصار آئے
اُتارتے ہیں جو ہاتھوں پہ اپنے شمس و قمر
ہم ان کے کہنے پہ اپنا گلا اُتار آئے
زمینِ شوق ہے اور لاپتہ ہے منزل بھی
سُبک روی سے چلو تم پہ اعتبار آئے
ہم ایسے لوگ چُنے ہیں فصیلِ مژگاں میں
جو ہم سے ملنے کو آئے تو ان کے پار آئے
لپک رہی ہے جو وحشت مِرے وجود کی سمت
اسے خبر ہے کہ چشمِ جہاں سے ہار آئے
رافع بخاری
No comments:
Post a Comment