Monday, 17 March 2025

عروج آدم خاکی کہاں کا قصہ ہے

ملتیں جب جادۂ حق سے گریزاں ہو گئیں 

جانے کتنی بستیاں شہر خموشاں ہو گئی 

پستیاں پنجوں کے بل اچھلی تو قیمت بڑھ گئیں 

عظمتیں بازار میں پہنچیں تو ارزاں ہو گئیں 

ضبط غم کا یہ تماشہ بھی کسی دن دیکھنا 

آندھیاں تنکوں سے ٹکرا کر پشیماں ہو گئیں 

عزت و ناموس کے دعوے فسانہ بن گئیں 

عصمتیں جب خود بھری محفل میں عریاں ہو گئیں 

بے حسی خود غرضیاں عیاریاں مکر و فریب 

آج کل یہ خوبیاں عزت کا ساماں ہو گئیں 

آپ تو خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہہ گئے 

رنجشیں جو دل پہ تھیں رخ پر نمایاں ہو گئیں 

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب آزاد تھے ذہن و ضمیر 

اب تو ان باتوں کے گزرے جیسے صدیاں ہو گئیں 


فاروق ارگلی

کنور محمد فاروق خاں

No comments:

Post a Comment