میرے غم کی حقیقت کا زمانہ راز داں کیوں ہو
نہاں ہے راز جو دل میں وہ اشکوں سے عیاں کیوں ہو
سکون مستقل کیوں ہو، نشاط جاوداں کیوں ہو
جو دل میں درد ہے وہ باعث تسکین جاں کیوں ہو
چمن میں جس طرف دیکھو نشیمن ہی نشیمن ہیں
ٹھکانا برق کا میری ہی شاخ آشیاں کیوں ہو
زمیں ان کی زماں ان کا مکاں و لا مکاں ان کا
تو اے ناصح! جبیں سائی کو قید آستاں کیوں ہو
چمن کی پاسبانی میں لہو ہم نے بہایا ہے
ہمارے سامنے درہم نظام گلستاں کیوں ہو
پرستار تجلی ہوں وفادار محبت ہوں
میں اس سے کیوں کروں شکوہ وہ مجھ پر مہرباں کیوں ہو
رہ ہستی کے پیچ و خم سے ہم اے درد واقف ہیں
بھٹک جائے جو منزل سے ہمارا کارواں کیوں ہو
عبدالمجید درد بھوپالی
No comments:
Post a Comment