کِس تیقّن تلک گئے ہم لوگ
پھر بھی اے دل بھٹک گئے ہم لوگ
مثلِ دریا ملی تھی سیرابی
مثلِ ساحل بلک گئے ہم لوگ
یوں ہی اک دن سفر کِیا آغاز
یوں ہی اک روز تھک گئے ہم لوگ
اہتماماً ہوئے تھے ہم آغوش
احتیاطً بہک گئے ہم لوگ
ایک خوشبو چمن میں لائی تھی
اور صحرا تلک گئے ہم لوگ
نُور تھا یا وہ اک بدن تھا سمیر
اس کو چُھو کر چمک گئے ہم لوگ
نعیم سمیر
No comments:
Post a Comment