حکم نامہ
سو اب یہ حکم آیا ہے
کہ اس بے فیض موسم
بے اماں صحرا میں رھنا ہے
سلگتی دھوپ اور بنجر پہاڑوں کو
شبستاں کی طرح
جنت کی مانند ہی سمجھنا ہے
کمیں گاہوں میں بیٹھے قاتلوں
کو بھی مسیحا ماننا ہے
اور روشن خواب و تازہ فکر
کو رستہ نہیں دینا
بدلتے وقت کی ہر اک ضرورت
ہر تقاضا بھول جانا ہے
یہ سارے اُجرتی قاتل
یہ مُخبر اور ان دیکھے
ستمگر فاتحوں کا جب اشارہ ہو
تو کٹھ پُتلی کی مانند رقص کرنا ہے
اگر یہ عدل کی میزاں کسی جانب جھکے
تو تم زبانیں بانجھ رکھو گے
فقط اس سمت کو سجدے میں گرنا ہے
فقط اک مرحبا کا لفظ کہنا ہے
کوئی سچ کوئی حق تمہارے حصے کا
کسی دستور جابر میں نہیں
سو چپ ہی رہنا ہے
قصیدے پڑھ تو سکتے ہو
مگر جو نام اور جو منطقے ازبر کیے جائیں
زباں سے لفظِ واحد بھی
اگر غلطی پھسلا تو
زباں پھر ہاتھ میں ہو گی
ہماری سرکشی بھی گھات میں ہو گی
سو یہ فرمانِ تازہ مل گیا میرے قبیلے کو
مگر یہ شوقِ شاہی رکھنے والوں
اوران کے ہر مجاور کو خبر کر دو
کہ اس فرمانِ تازہ کو
غلاموں کا قبیلہ
اپنے سنگینوں سے پرزے پرزے کر کے
چل پڑے ہیں ایسے رستے پر
جہاں پر موت و آزادی
کا اک یکساں تناسب اور امکاں ہے
حماد حسن
No comments:
Post a Comment