تری یادوں کا محشر کھینچتے ہیں
چلو پھر دن کا چکر کھینچتے ہیں
سویرا آن بیٹھا ہے سروں پر
اٹھو پھر شب کی چادر کھینچتے ہیں
ہماری پیاس مثل دشت و صحرا
ہم آنکھوں سے سمندر کھینچتے ہیں
یہاں ہر سو سماں ہے جشن کا سا
مگر ہم غم برابر کھینچتے ہیں
تِری مے کی نہیں یہ بات ساقی
ہمیں اپنے ہی تیور کھینچتے ہیں
ہمیں کب راس خشکی کے جزیرے
چل اٹھ جا دوست! لنگر کھینچتے ہیں
راشد اطہر
No comments:
Post a Comment