Saturday, 29 March 2025

اپنے آغاز کو انجام میں پایا ہم نے

 اپنے آغاز کو انجام میں پایا ہم نے

راز کیا پردۂ ابہام میں پایا ہم نے

کھو گیا تھا جو کبھی بھیڑ میں چہروں کی اسے

اپنی تنہائی کی ہر شام میں پایا ہم نے

ریت بھرتے رہے آنکھوں میں سرابوں کی سدا

عذر جینے کا اسی کام میں پایا ہم نے

کتنے شیریں لب ناگفتہ مگر تھے اس کے

لطف کچھ اور ہی دشنام میں پایا ہم نے

تم تو ڈھونڈا کیے امید و یقیں میں اس کو

دل کی ہر خواہش ناکام میں پایا ہم نے


رفعت شمیم 

No comments:

Post a Comment