یہاں اپنا بنا کر ہی سبھی انکار کرتے ہیں
چلو ہم بھی محبت کا ہی کاروبار کرتے ہیں
بھروسہ کیسے کر پاؤ گے تم بے دین لوگوں کا
یہاں پر سب منافق ہیں کھلا اقرار کرتے ہیں
بتاتے ہیں سبھی منزل کا الٹے ہی طریقے سے
بھلا ایسے ستم بھی دین کے غمخوار کرتے ہیں؟
تماچا جب بھی پڑتا ہے ہمیں طعنوں بھرا کوئی
میاں ہم تو بڑے ہی شوق سے رخسار کرتے ہیں
زمیں کو چھوڑ کےکر لو ارے ہجرت ستاروں پر
کبھی اِس کو کبھی اُس کو یہاں پر پیار کرتے ہیں
جلے جب شمع تو پروانے خود کو ہی جلاتے ہیں
بتا وہ شمع سے کس بات کا اصرار کرتے ہیں؟
دلوں میں حرص رکھ کر ہی محبت کو نبھاتے ہیں
دکھاوے کے لیے ہی سب خیال یار کرتے ہیں
کرو گے کس طرح ثانی! لڑائی بے وفاؤں سے
سنو یہ لوگ تو بس پیٹھ پیچھے وار کرتے ہیں
جون ثانی
No comments:
Post a Comment