باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت
اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت
تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت
میں ہوں کہ میرے ساتھ مِری خواہشیں بہت
نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں
شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت
اپنا وجود راہ کا پتھر سمجھ کے میں
اپنے خلاف کرتا رہا سازشیں بہت
کچھ گھر چمک اٹھے تو کئی گھر جھلس گئے
رسوا ہیں آفتاب تِری تابشیں بہت
اپنا بھی لے تو گاؤؤں کی سادہ سی زندگی
شاہد عبث ہیں شہر میں زیبائشیں بہت
شاہد شیدائی
No comments:
Post a Comment