Tuesday, 4 March 2025

باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت

 باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت

اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت

تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت

میں ہوں کہ میرے ساتھ مِری خواہشیں بہت

نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں

شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت

اپنا وجود راہ کا پتھر سمجھ کے میں

اپنے خلاف کرتا رہا سازشیں بہت

کچھ گھر چمک اٹھے تو کئی گھر جھلس گئے

رسوا ہیں آفتاب تِری تابشیں بہت

اپنا بھی لے تو گاؤؤں کی سادہ سی زندگی

شاہد عبث ہیں شہر میں زیبائشیں بہت


شاہد شیدائی

No comments:

Post a Comment