وسعت نہیں نظر میں ہے دل اور تنگ ہے
آئینۂ خیال پہ صدیوں کا زنگ ہے
سر پہ گناہگار کے چادر ہے خاک کی
مٹّی میں گل کھلاتی ہوئی ہر اُمنگ ہے
پتھر برس پڑیں نہ کہیں آسمان سے
ہِلتی ہوئی زمیں میں غضب کی ترنگ ہے
چہرہ لہو لہان ہے، دامن دھواں دھواں
یا رب سیاہ آنکھ میں کیا سُرخ رنگ ہے
وحشت سوار ہوتی ہوئی سی ہے ذہن پر
جس کو بھی دیکھیے وہی مصروف جنگ ہے
میں گھونٹ گھونٹ پیتا ہوں سیالِ آتشیں
سانسوں کے راستے میں بھی جلتی سرنگ ہے
خواہش کے آسمان کو چھونے کی دوڑ میں
یہ زندگی کٹی ہوئئی گرتی پتنگ ہے
دیکھا ہے اک چراغ شبِ تار پر گراں
حیرت فروش پرتوِ خورشید دنگ ہے
جینے کو جی رہا ہوں، مگر کیا کہوں میاں
الفت یہ کوئی جینا ہے، جینے کا ڈھنگ ہے
اشہد کریم الفت
No comments:
Post a Comment