جب نہ ساتھی ہو کوئی بگڑی ہوئی تقدیر کا
اے دلِ مایوس! دامن تھام لے تدبیر کا
کر رہا ہوں اس لیے میں کعبۂ دل کا طواف
عکس ہے اس آئینے میں آپ کی تصویر کا
تیرے در کی خاک دنیا میں میسر ہو جسے
جیتے جی طالب نہ ہو وہ پھر کسی اکسیر کا
ہے یہ پاسِ عشق جو میں اس طرح خاموش ہوں
ورنہ سب مطلب سمجھتا ہوں تِری تحریر کا
تم اگر چاہو تو ہر مشکل مِری آسان ہو
عقدۂ لا حل نہیں عقدہ مِری تقدیر کا
جب میں کہتا ہوں کیا برباد مجھ کو عشق نے
کہتے ہیں وہ کیا کریں لکھا تِری تقدیر کا
غیر کے پردے میں اکثر ان کی بزمِ ناز میں
ذکر آ جاتا ہے اب بھی فاضلِ دلگیر کا
فاضل کاشمیری
No comments:
Post a Comment