حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں
جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں
مداوائے غم فرقت نہیں کچھ
بس ان کی داستاں ہے اور میں ہوں
نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم نواں ہے
دل اپنا راز داں ہے اور میں ہوں
بھری محفل میں بھی بیٹھا ہوں تنہا
مِرا درد نہاں ہے اور میں ہوں
نہیں درد آشنا جس سے کہوں کچھ
مِرے منہ میں زباں ہے اور میں ہوں
بہار آئی چمن میں آئی ہو گی
یہاں دور خزاں ہے اور میں ہوں
نہیں باقی وہ نغمہ اور ترانہ
بس اک ہو کا سماں ہے اور میں ہوں
نہ وہ ساقی نہ وہ ہم مشرب اپنے
جمود مے کشاں ہے اور میں ہوں
کبھی اس دل کی زد میں تھا زمانہ
اب اک اتری کماں ہے اور میں ہوں
نہیں مہلت کہ دم بھر مڑ کے دیکھوں
مِری عمر رواں ہے اور میں ہوں
کبھی کا جل چکا گو آشیانہ
خیال آشیاں ہے اور میں ہوں
حبیبؔ اب زندگی کی شام آئی
غم سود و زیاں ہے اور میں ہوں
جے کرشن چودھری حبیب
No comments:
Post a Comment