Friday, 14 March 2025

حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں

 حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں

جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں

مداوائے غم فرقت نہیں کچھ

بس ان کی داستاں ہے اور میں ہوں

نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم نواں ہے

دل اپنا راز داں ہے اور میں ہوں

بھری محفل میں بھی بیٹھا ہوں تنہا

مِرا درد نہاں ہے اور میں ہوں

نہیں درد آشنا جس سے کہوں کچھ

مِرے منہ میں زباں ہے اور میں ہوں

بہار آئی چمن میں آئی ہو گی

یہاں دور خزاں ہے اور میں ہوں

نہیں باقی وہ نغمہ اور ترانہ

بس اک ہو کا سماں ہے اور میں ہوں

نہ وہ ساقی نہ وہ ہم مشرب اپنے

جمود مے کشاں ہے اور میں ہوں

کبھی اس دل کی زد میں تھا زمانہ

اب اک اتری کماں ہے اور میں ہوں

نہیں مہلت کہ دم بھر مڑ کے دیکھوں

مِری عمر رواں ہے اور میں ہوں

کبھی کا جل چکا گو آشیانہ

خیال آشیاں ہے اور میں ہوں

حبیبؔ اب زندگی کی شام آئی

غم سود و زیاں ہے اور میں ہوں


جے کرشن چودھری حبیب

No comments:

Post a Comment