کسی کی راہنمائی قبول کیا کرتے
ہمارے عہد میں آ کر رسول کیا کرتے
جو دستکوں کے لیے دل کے در تلک آیا
ہم اس کرم کا کوئی عرض و طول کیا کرتے
کسی کی یاد میں رونا تو اک فریضہ تھا
مری کتاب کے مرجھائے پھول کیا کرتے
جو ایک داغِ برہنہ لیے تھے ہستی پر
وہ سر کا دوش پہ رہنا قبول کیا کرتے
حیات لفظ و معانی سے ہو گئی باہر
ہم ایک عمر رسیدہ حصول کیا کرتے
زبان کاٹ کے سب خوش تھے اپنے ہاتھوں سے
نوائے ہوش انا کے اصول کیا کرتے
تمام جسم کے اعضاء سڑے گلے تھے اثر
انہیں مزید پرکھنے کی بھول کیا کرتے
اسحٰق اثر
No comments:
Post a Comment