اس چمن میں آشیاں اپنا بنا سکتے نہیں
کھول کر دل جس چمن چہچہا سکتے نہیں
خوف سے گلچیں کے غنچے ہیں چمن میں دم بخود
مسکرا سکتے ہیں، لیکن کھل کھلا سکتے نہیں
باغباں سے کر لیا صیّاد نے کچھ ساز باز
اہلِ گُلشن خیر اب اپنی منا سکتے نہیں
چور بازاری، گرانی، فرقہ وارانہ فساد
دیکھتے سب کچھ ہیں لیکن لب ہلا سکتے نہیں
آپ رکھ سکتے نہیں جب اپنے گھر کی کچھ خبر
چاند سورج کی خبر ہر گاہ لا سکتے نہیں
میں نے مانا یہ ہوئی ہر چیز قومی ملکیت
فائدہ کیا جب دلوں کو قومیا سکتے نہیں
حکم ہے اہلِ چمن کو باغباں کا بار بار
رہ کے اس گلشن میں ہنگامہ مچا سکتے نہیں
لب پہ ہے مہر خموشی رعب ہے قُفلِ دہن
داستانِ درد و غم بسمل سنا سکتے نہیں
بسمل گیاوی
No comments:
Post a Comment