کہیں ہے داغ ناکامی کہیں ہے خون ارماں کا
ہمارا دل مرقع بن گیا ہے یاس و حرماں کا
جہاں والوں پہ میں احسان کر کے بھول جاتا ہوں
مِرے اخلاق کو چمکا رہا ہے نقش نسیاں کا
علائق میں الجھ کر فرصت نظارہ کھو بیٹھا
نہایت دید کے قابل تھا منظر بزم امکاں کا
بڑھی ہے تشنگی سیراب کر دو پاؤں کے چھالو
ذرا سا منہ نکل آیا ہے ہر خار بیاباں کا
نہیں ہیں حالی و اقبال سے شاعر تو کیا غم ہے
ابھی اک دم غنیمت ہے تو جرار سخنداں کا
سید جرار رضوی چھولسی
No comments:
Post a Comment