اِسی میں ہجر کے شام و سحر ٹھکانے لگے
جب آئینے کے نئے خال و خد بنانے لگے
طلب کی راہ میں شامل تھی خود پسندی بھی
میں تیری سمت چلا پاؤں لڑکھڑانے لگے
میں سو رہا تھا تو آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھا
میں اُٹھ گیا تو تسلسل سے خواب آنے لگے
کئی خیال تیری جستجو میں خاک ہوئے
جو تھک گئے تو اسی خاک کو اڑانے لگے
تمہارے شہر سے ہجرت کا وقت آ گیا ہے
کوئی بھی روکنے والا نہیں سو جانے لگے
فلک سے چاند زمیں کے قریب آیا تو
کنارِ چشم کئی تارے ٹمٹمانے لگے
یقیں کے پھول پہ جو رنگ آیا ہے تیمور
اِسے بنانے میں مجھ کو کئی زمانے لگے
سید تیمور کاظمی
No comments:
Post a Comment