Tuesday, 18 March 2025

مجھے سفر میں ہے خدشہ بدن پگھلنے کا

 مجھے سفر میں ہے خدشہ بدن پگھلنے کا

خیال چھوڑ دے تو میرے ساتھ چلنے کا

عجیب رات ہے کٹتی نہیں کسی صورت

لگے ہے اب کوئی سورج نہيں نکلنے کا

لہو لکھے گا تمہاری بھی موت کا فرمان

تماشہ دیکھ رہے ہو جو سر اچھلنے کا

ابھی تو کچھ نہيں ،موسم ذرا بدلنے دو

کرشمہ دیکھنا پوشاک کے بدلنے کا

میں سانس سانس لیے تیرے قرب کی خواہش

عذاب جھیل رہا ہوں لہو میں جلنے کا

شمارِ زخم کی فرصت نہیں جنہیں اظہر

جواز کیا لکھیں احساس کے کچلنے کا


عبدالسلام اظہر

No comments:

Post a Comment