مجھے سفر میں ہے خدشہ بدن پگھلنے کا
خیال چھوڑ دے تو میرے ساتھ چلنے کا
عجیب رات ہے کٹتی نہیں کسی صورت
لگے ہے اب کوئی سورج نہيں نکلنے کا
لہو لکھے گا تمہاری بھی موت کا فرمان
تماشہ دیکھ رہے ہو جو سر اچھلنے کا
ابھی تو کچھ نہيں ،موسم ذرا بدلنے دو
کرشمہ دیکھنا پوشاک کے بدلنے کا
میں سانس سانس لیے تیرے قرب کی خواہش
عذاب جھیل رہا ہوں لہو میں جلنے کا
شمارِ زخم کی فرصت نہیں جنہیں اظہر
جواز کیا لکھیں احساس کے کچلنے کا
عبدالسلام اظہر
No comments:
Post a Comment