Thursday, 27 March 2025

شاید ہمارے بخت میں کوئی خضر نہیں

 شاید ہمارے بخت میں کوئی خِضر نہیں

"منزل ہے، راستہ ہے، مگر راہبر نہیں"

خوں رو رہی ہے قوم، گریبان چاک ہیں

افسوس دُور دُور تلک چارہ گر نہیں

شاعر تُو اس جہاں کا مفکّر نہیں ہے کیا

کیا مرتبہ ہے تیرا، کیا تجھ کو خبر نہیں؟ 

ساری یہ کائنات بنی تیرے واسطے

انساں! تِری حدود یہ شمس و قمر نہیں

سورج زمین و چاند کا عالم تو خوب ہے

پر اپنی ذات کی تجھے بالکل خبر نہیں

پوشیدہ حکمتوں کے خزانے ہیں اس کے پاس

بوڑھے ضعیف کی کوئی سنتا مگر نہیں

اے ماں! تِرے بغیر جہاں یوں لگے مجھے

صحرا میں سایہ دار کوئی بھی شجر نہیں

قسمت میں ہر بشر کی نشیب و فراز ہیں

دانش! تِرے ہی بخت میں زیر و زبر نہیں


ایوب بیگ دانش

No comments:

Post a Comment